Breaking

Friday, August 9, 2024

اسرائیل کے بعد یہودیوں کی تعداد سے ایران دوسرے نمبر پر

اسرائیل کے بعد یہودیوں کی تعداد سے ایران دوسرے نمبر پر

پہلی نظر میں سے یہ بات آپ کو عجیب لگے گی لیکن ایران وہ واحد
ملک ہے جس میں یہودی پار لیمنٹ کے رکن ہیں تفصیل پڑھیں مزید



 

ایران میں یہودیوں کی موجودگی کی تاریخ تین ہزار سال

سے بھی پرانی ہے۔ اسرائیل سے آشور بابل اور وسطی و

مغربی ایران کی طرف یہودیوں کی ہجرت مختلف ادوار

میں تسلسل کے ساتھ جاری رہی۔ اس عہد ہجرت و نقل

مکانی کی پوری تاریخ شاہد ہے کہ یہودیوں کے ایرانیوں

کے ساتھ گہرے مذہبی اور ثقافتی تعلقات رہے۔ سیاہکل کے

یہودی رمضان میں مسلمانوں کے ساتھ روزہ رکھتے تھے

اور کردستان کے یہودی صوفی تقریبات میں شریک ہوا

کرتے تھے۔ یہودی بذات خود ایران کی ثقافتی زندگی میں

سرگرم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

ایرانی حکام اسرائیل کو شیطان خورد اور کٹر دشمن کہتے

کہتے نہیں تھکتے تاہم دنیا بھر میں سب سے بڑی یہودی

کمیونٹی اسرائیل کے بعد ایران میں بسی ہوئی ہے۔ ایرانی

مجلس شوریٰ میں ان کا نمائندہ تعینات ہے۔ دیگر مذہبی

اقلیتوں کے مقابلے میں یہودی اقلیت کی پوزیشن ایران

میں سب سے زیادہ بہتر ہے۔ ایرانی حکام نسلی اقلیت

عربوں، کردوں اہلسنت والجماعت اور آذربائیجانیوں کے

ساتھ نہایت سختی سے پیش آتے ہیں۔ ایران میں خاص

طور پر عرب احواز مصائب سے دوچار ہیں۔ ایرانی حکام ان

کے قدرتی وسائل پر قبضہ کئے ہوئے ہیں۔ ایرانی مجلس

شوری میں یہودیوں کے نمائندہ سیامک مره صدق نے اپنے

بیان میں کہا کہ ہمیں ایران میں مکمل آزادی حاصل ہے ،

ہم اپنی مختلف سرگرمیاں پوری آزادی سے انجام دیتے

ہیں۔ یہودیوں کو ایرانی اکیڈمی میں تعلیم کی اجازت ہے۔

سیامک مرہ میڈیسن کے پروفیسر اور ان کی بیوی جینیات

کے علم میں پی ایچ ڈی ہیں۔ ان کا کہنا کہ

ہے میں اپنا

تعارف یہ کہہ کر کراتا ہوں کہ میں یہودی اور ایرانی ہوں،

ایرانی زبان میں عبادت کرتا ہوں ۔

میں

یہ بات نہایت عجیب محسوس ہوتی کہ ملک

جس

یهودی مردہ باد اور اسرائیل کے جھنڈے جلائے جاتے

ہوں، وہاں یہودیوں کی خدمات کا اعتراف کون کرے گا ؟

لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تہران حکومت نے عراق،

ایران جنگ میں ہلاک ہونے والے ایرانی یہودیوں کے اعتراف

ایک یاد گار تعمیر کی ہے۔ یہ یادگار ایران کے جنوب

میں

میں واقع آٹھ ایکڑ رقبے پر محیط یہودی قبرستان میں

تعمیر کیا گیا تہران میں یہودی کمیونٹی کے سربراہ ہمایوں

نجف آبادی کا کہنا تھا، جو بھی اس یادگار کو دیکھے

گا، وہ ان قربانیوں کو یاد کرے گا، جو یہودی شہدا نے دی

ہیں۔

قبرستان میں بنائے جانے والے اس یادگاری تختے پر دس

یہودیوں کے نام کنندہ کیے گئے ہیں۔ ان میں سے پانچ

یہودی 1980 سے 1988 تک عراق کے خلاف جاری رہنے

والی جنگ میں مارے گئے تھے، تین اس وقت ہلاک ہوئے

تھے، جب دوران جنگ صدام حسین نے تہران پر بمباری کی

تھی جبکہ دیگر دو ایرانی شاہ کے آخری دور میں بدامنی

کے دوران مارے گئے تھے۔

یہودیوں کے لیے یادگار دس قبروں کی بحالی کا کام اس

ایرانی تنظیم کی مالی مدد سے انجام دیا گیا ہے، جس کا

کام عراق ایران جنگ میں زخمی یا مارے جانے والے یہودی

فوجیوں کے اہلخانہ کی مدد کرنا ہے۔ انقلاب ایران سے پہلے

اس ملک آباد میں یہودیوں کی تعداد تقریبا 80 ہزار سے

ایک لاکھ کے درمیان تھی لیکن بعدازاں ان میں سے کچھ

یہودی ،امریکا اسرائیل اور یورپ کی طرف نقل مکانی کر

گئے۔ اب ایران میں آباد یہودی زیادہ تر تهران اسفہان اور

شیراز میں آباد ہیں۔

ایران کی یہودی کمیونٹی سرکاری طور پر تسلیم شدہ تین

مذہبی اقلیتوں میں سے ایک ہے اور پارلیمان میں اس کا

ایک رکن نامزد ہے۔ ارمینی عیسائیوں کے دو نامزد ارکان

پارلیمنٹ میں موجود ہیں جبکہ مجوسیوں اور کلدانی

مسیحیوں کا ایک ایک رکن ملکی پارلیمان کا حصہ ہیں۔

واضح تکہ ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد کے

اسرائیل کے خلاف تند و تیز بیانات آتے رہتے تھے۔ ایران

کی نئی قیادت اپنے ملک کی ساکھ کو بہتر بنانے اور ایران

کی ایک مصالحتی شکل پیش کرنے کی کوشش کر رہی

ہے۔ اور اعتدال پسند صدر حسن روحانی نے اقتدار میں

آتے ہی ہولوکاسٹ کی مذمت کی تھی، جبکہ ایرانی صدر

کی طرف سے ایک ٹوئیٹر پیغام میں خیر سگالی کے طور

پر یہودیوں، خاص طور سے یہودی برادری کو اُن کے نئے

سال کے موقع پر نیک تمناؤں کا پیغام دیا گیا تھا۔

No comments:

Post a Comment