Breaking

Tuesday, August 6, 2024

ایسے لشکر جرار کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جسکا پہلا فرد تیرے محل میں ہوگا اور آخری میرے دربار میں ہوگا

 





جب زمانے میں مسلمانوں کی قدر و قیمت ہوا کرتی تھی
عمر بن عبدالعزیز نے اپنے ایک قاصد کو شاہ روم کے پاس
کسی کام سے بھیجا
قاصد پیغام پہنچانے کے بعد محل سے نکلا اور ٹہلنے لگا
ٹہلتے ٹہلتے اسکو ایک جگہ سے تلاوت کلام پاک سنائی
دی آواز کی جانب گیا تو کیا عجیب منظر دیکھا کہ ایک
نابینا شخص چکی پیس رہا ہے اور ساتھ میں تلاوت کلام
پاک بھی کر رہا ہے
قاصد نے آگے بڑھ کے سلام کیا جواب نہیں ملا دوبارہ
سلام کیا جواب نہیں ملا تیسری بار سلام کیا نابینا شخص
نے سر اٹھا کر کہا شاہ روم کے دربار میں سلام کیسے اور
کہاں سے؟
قاصد نے کہا : پہلے یہ بتاؤ کہ شاہ روم کے دربار
خدا
میں
کا کلام کیسے اور کہاں سے؟
اس نابینا شخص نے بتایا کہ وہ یہاں کا مسلمان ہے بادشاہ
نے مجبور کیا کہ اسلام چھوڑ دے۔ انکار پے سزا کے طور
پے میری دونوں آنکھیں نکال دی اور اس کے بعد چکی
پیسنے پے لگا دیا۔
معاملات طے کرنے کے بعد قاصد واپس آیا تو عمر بن عبد
العزیز کے سامنے اس قیدی کی بات بھی رکھ دی۔۔۔۔

کیا لوگ تھے عمر بن عبد العزیز نے کوئی مذمتی "بیان"
جاری نہیں کیا، اور نہ پانچ یا دس منٹ کی خاموشی
اختیار کرنے کا حکم دیا، اور نہ اجلاس بلایا، بلکہ کاغذ قلم
لیا اور یہ تحریر شاہ روم کولکھ بھیجی۔۔۔۔
"I
اے شاہ روم میں نے سنا ہے کہ تیرے پاس ایک مسلمان
قیدی ہے اور تو نے اس پے ظلم روا رکھا ہے۔ میری یہ
تحریر تیرے پاس پہنچنے کے بعد اگر تو نے اس قیدی کی
رہائی کا پروانہ جاری نہیں کیا۔
تو پھر تجھے ایسے لشکر جرار کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جسکا پہلا فرد تیرے محل میں ہوگا اور آخری میرے دربار
میں ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ ایک اسلامی مملکت کے سربراہ نے اتنا بڑا
قدم کیوں اٹھایا؟ وہ بھی ایک شخص کے لئے جو اسکے
ملک کا باشندہ بھی نہیں تھا، اپنی سالمیت خطرے میں
ڈال دی پتہ ہے کیوں؟ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر ایک
مسلمان کی حرمت خانہ کعبہ سے بڑھ کر ہے تو جغرافائی
حدود سے بھی بڑھکر ہے۔
کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ رسول ( علیہ الصلاة والسلام
نے صرف ایک صحابی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ
عنہ کے لئے پندرہ سو صحابہ کرام سے موت پہ بیعت لی
تھی۔

انہیں معلوم تھا کہ ہادی عالم یہ فرما گئے ہیں کہ تمام
مسلمان ایک جسم کی مانند ہے، ایک حصے کو تکلیف ہوتی
ہے تو تمام جسم تڑپتا ہے۔
انہیں معلوم تھا کہ نحن الامہ ہم ایک امت ہے اور جب
سے یہ نظریہ ہم سے اٹھا ہے ذلیل و رسواء ہورہے ہے۔
آج باوجود اسکے کی دنیا میں ڈیڑھ ارب مسلمان موجود
ہے لیکن شامی بچی آخری ہچکیاں لیتی ہوئی کہتی ہے
میں رب کو جا کر سب کچھ بتاؤنگی۔۔۔
عراق جنگ میں ایک لڑکی جان بچانے کے لئے بھاگتے ہوئے
صحافی سے فریاد کرتی ہے کہ انکل میری تصویر نہیں لینا
میں بے حجاب ہوں۔۔۔
ایک فلسطینی بچہ بھوک کی شدت سے نڈھال فریاد کر
رہا ہے کہ اے اللہ مجھے جنت بیھج دے مجھے بہت بھوک
لگی ہے۔
صرف چند لاکھ آبادی کا حامل ایک ملعون ملک آپ (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرتا ہے اور دو
ارب مسلمان تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
یہ سب کیوں ہورہا ہے۔۔۔۔؟
کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہم میں سے کوئی پاکستانی ہے،
کوئی ہندوستانی، کوئی سعودی اماراتی تو کوئی ملائی یا
بنگالی مسلمان ہے۔ سب ایک ہوتے تو ایک دوسرے کے درد
کا احساس بھی ہوتا ایک دوسرے کے لئے تڑپ بھی ہوتی۔
جبکہ مقابلے میں کفر ناٹو فوجی اتحاد کی صورت متحد
ہے۔
اللہ رب العزت ہم تمام مسلمانوں کو متحد ہونے اور کفر کے
خلاف کھڑے ہونے کی ہمت حوصلہ اور جزبہ ایمان عطا
... فرمائے

No comments:

Post a Comment