![]() |
جب ایک مسلمان حکمران نے ایک لڑکی کی خاطر پورا شہر تباہ کیا |
يعقوب بن جعفر بن سليمان بیان کرتے ہیں کہ
عموریہ کی جنگ میں وہ مشہور عباسی
خلیفہ معتصم باللہ کے ساتھ تھے۔ عموریہ
کی جنگ کا پس منظر بھی انتہائی دلچسپ ہے۔
ایک پرده دار مسلمان خاتوں عموریہ کے
بازار میں خریداری
کے لیے گئی۔ ایک عیسائی دوکاندار نے اسے
بے پردہ کرنے کی کوشش کی اور خاتوں کو
ایک تھپڑ رسید کیا۔ لونڈی نے بے بسی کے عالم
میں پکارا۔۔۔ وامعتصما !!!!! " ہائے خلیفہ معتصم
میری مدد کرو پھر اس عیسائی نے اس عورت !
کے چہرے پر کھینچ کر ایک دوسرا تھپڑ رسید
کیا جس سے وہ تلملا اٹھی ۔ سب دوکاندار
لگے، اسکا مزاق اڑانے لگے کہ سینکڑوں
ہنسنے
میل دور سے معتصم تمہاری آواز کیسے سنے گا؟۔
۔۔ ایک مسلمان یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔ اس نے
خود کلامی کے انداز میں کہا میں اس کی آواز
کو معتصم تک پہنچاؤں گا ، وہ بغیر رکے دن رات
سفر کرتا ہوا معتصم تک پہنچ گیا اور اسے یہ
ماجرا سنایا۔ یہ سننا تھا کہ خلیفہ معتصم
باللہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا ۔ خلیفہ
معتصم نے اس آدمی سے دریافت کیا " عموریہ
کس سمت میں ہے؟" اس آدمی نے عموریہ
کی سمت اشارہ کرکے بتلایا کہ عموریہ اس
طرف ہے۔ خلیفہ معتصم باللہ نے اپنا رخ عموریہ
کی سمت موڑا اور کہا میں تیری آواز پر
حاضر ہوں اے لونڈی، معتصم تیری پکار کا
جواب دینے آرہا ہے، میری بہن میں حاضر ہوں
۔ پھر خلیفہ نے عموریہ کے لیے بارہ ہزار گھوڑے
تیار کرائے اور ایک لشکر جرار لے کر عموریہ
پہنچا مسلمانوں کی آمد سے خوفزدہ ہو کر
قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے، تو آپ
رومی
نے اس کا محاصرہ کرلیا ۔ جب اس محاصر ہے
-
کی مدت طول پکڑ گئی تو اس نے مشیروں
سے مشورہ طلب کیا۔ انہوں نے کہا: "ہمارے
خیال کے مطابق آپ عموریہ کو انگور اور
انجیر کے پکنے کے زمانے ہی میں فتح کر سکتے ہیں۔
چونکہ اس فصل کے پکنے کے لیے ایک لمبا وقت
درکار تھا اس لیے خلیفہ پر یہ مشورہ بڑا گراں
گزرا خلیفہ اسیرات اپنے خاص سپاہیوں کے
ہمراہ چپکے چپکے لشکر کے
معائنے کے لیے نکلا تاکہ مجاہدین کی باتیں سن سکے کہ
اس بارے میں ان کی چہ مگوئیاں کس نتیجے پر پہنچنے
والی ہیں۔ خلیفہ کا گزر ایک خیمے کے پاس سے ہوا جس
میں ایک لوہار گھوڑوں کی نعلیں تیار کر رہا تھا۔ بٹھی
گرم تھی۔ وہ گرم گرم سرخ لوہے کی نعل نکالتا تو اس کے
سامنے ایک گنجا اور بد صورت غلام بڑی تیزی سے ہتھوڑا
چلاتا جاتا۔ لوہار بڑی مہارت سے نعل کو الٹا پلٹتا اور اسے
غلام
پانی سے بھرے برتن میں ڈالتا جاتا۔ اچانک غلام نے برے
زور سے ہتھوڑا مارا اور کہنے لگا
یہ معتصم کے سر پر لوہار نے غلام سے کہا: تم نے بڑا
"
برا کلمہ کہا ہے ۔ اپنی اوقات میں رہو۔ تمہیں اس بات کا
کوئی حق نہیں کہ خلیفہ کے بارے میں ایسا کلمہ
کہو۔ غلام کہنے لگا : " تمہاری بات بلکل درست
ہے مگر ہمارے خلیفہ بالکل عقل کا کورا ہو گیا ہے۔
اس کے پاس اتنی فوج ہے۔ تمام تر قوت اور
طاقت ہونے کی باوجود حملہ میں
تاخیر
کرنا کسی صورت مناسب نہیں اللہ کی قسم
اگر خلیفہ مجھے یہ ذمہ داری سونپ دیتا
تو میں کل کا دن عموریہ شہر میں گزارتا۔
لوہار اور اس کے غلام کا یہ کلام سن کر خلیفہ
معتصم باللہ کو بڑا تعجب ہوا۔ پھر اس نے
چند سپاہیوں کو اس خیمے پر نظر رکھنے کا
حكم ديا اور اپنے خیمے کی طرف واپس ہوگیا۔
صبح ہوئی تو ان سپاہیوں نے اس ہتھوڑے
مارنے والے غلام کو خلیفہ معتصم باللہ کی
خدمت میں حاضر کیا۔ خلیفہ نے پوچھا رات
جو باتیں میں نے سنی ہیں ان باتوں کی کرنے
کی تمہیں جرات کیسے ہوئی؟ غلام نے جواب دیا
آپ نے جو کچھ سنا ہے، وہ سچ ہے۔ اگر آپ
""
جنگ میں مجھے کمانڈر بنادیں تو مجھے امید ہے
کہ اللہ تعالی عموریہ کو میرے ہاتھوں فتح
کروا دے گا۔ خلیفہ نے کہا: "جاؤ میں نے فوج
کی کمان تمہیں سونپ دی۔ چنانچہ الله تعالی
نے عموریہ کو اس غلام کے ہاتھوں فتح کرا
دیا۔ پھر معتصم باللہ شہر کے اندر داخل ہوا۔
اس نے فوراً اس آدمی کو تلاش کیا جو اس
عورت کے متعلق اس کے دربار تک شکایت اور
پیغام لے گیا تھا اور اس سے فرمایا: جہاں تونے
اس عورت کو دیکھا تھا وہاں مجھے لے چلو۔
وہ آدمی خلیفہ کو وہاں لے گیا اور عورت کو
اس کے گھر سے بلا کر خلیفہ کی خدمت
حاضر کیا۔ اس وقت خلیفہ نے اس عورت
میں
سے
کہا لڑکی! بتا معتصم تیری مدد کو
پہنچا یا نہیں؟" اس
لڑکی نے اثبات میں اپنا سر ہلا دیا۔ اور
اب تلاش اس عیسائی کی ہوئی جس نے
اس لڑکی کو تھپڑ رسید کیا تھا۔ اس کو پکڑ
کر لایا گیا اور اس لڑکی سے کہا گیا کہ
آج وقت ہے تم اس سے اپنا بدلہ لے لو۔۔۔۔
[ الله اكبر ]
No comments:
Post a Comment